header logo

I carved, I worshiped, I broke: Allama Iqbal

ہزاراں سال با فطرت نشستم

بہ او پیوستم و از خود گسستم
ولیکن سر گذشتم ایں دو حرف است
تراشیدم ، پرستیدم ، شکستم

میں ہزاروں برس فطرت کے ساتھ رہا ہوں
اس میں پیوست اور خود سے جدا ہوا ہوں
لیکن میرا ماجرا ان دو حرفوں میں آجاتا ہے
میں نے بت تراشا،میں نے پوجا، میں نے توڑ دیا۔

خلاصہ: انسان ہزاروں سال سے اس کائنات کے مطالعہ میں منہمک ہے۔ اوراپنی خودی سے غافل ہوکر اس نے اپنی تمام تر توجہ عناصر فطرت پر مبذول کردی ہے لیکن ان طویل مدت کے مطالعہ مشاہدہ اور تجربہ کا نتیجہ تین لفظوں میں بیان کیا جاسکتا ہے۔
1۔انسان نے ہر دور میں کچھ نظریات وضع کئے
2۔ ان کو صیح سمجھ کر انکی پیروی { پرستش} کی۔
3 انجام کار ان کی غلطی آشکار ہوگئی تو انہیں مردود قرار دے دیا۔
یعنی اپنے بنائے ہوئے بُتوں کو خود پاش پاش کردیا
علامہ رح نے اس مصرع میں گذشتہ ڈھائی ہزار سال کی فلسفیانہ جدوجہد کی تاریخ کا خلاصہ بیان کردیا ہے۔
اکبر الہ آبادی نے اس نکتہ کو بایں الفاظ واضح کیا ہے
انکشافِ رازِ ہستی عقل کی حد میں نہیں
فلسفی یاں کیا کرے اور سارا عالم کیا کرے

" پیامِ مشرق" علامہ محمد اقبال رحمت اللہ علیہ
https://www.youtube.com/watch?v=IxTHubOObzc

(Credit: the Honorable Barrister Zafarullah Khan sahib)


The first part describes the author's thousands of years of study of nature, yet their journey can be summed up in three words: carving, adoring, and shattering. The second part outlines the history of philosophy and human thought as establishing theories, following them, and then discarding them. In the third passage, Allama Iqbal is quoted as saying that human reason cannot fully explain the mysteries of existence and that philosophy cannot address all of humanity's problems on its own.



The realization that human life and the trip may be reduced to three actions—carving, worshipping, and breaking—is the result of thousands of years of people immersed in the study of nature.the progression of human beliefs and philosophies over time, as individuals create theories, adhere to them, and then reject them. Human reason has limitations when it comes to deciphering the mysteries of reality, and that philosophy cannot address all of humanity's problems on its own.

I carved, I worshiped, I broke:  Allama Iqbal


the circular nature of human inquiry and comprehension, highlighting the limits of human reason and the demand for a more comprehensive viewpoint when addressing existential issues.


ہزاران سال با فطرت نشستم

بہ او پیوستم و از خود گسستم

ولیکن سر گذشتم این سہ حرفست

تراشیدم ، پرستیدم ، شکستم

ترجمہ

میں نے ہزاروں سال فطرت سے ہم نشینی اختیار کی

میں اس کے ساتھ پیوست ہو گیا اور اپنے آپ کو فنا کر دیا

لیکن میری تمام تر سرگزشت ان تین حروف پر مشتمل ہے

میں تراشتا ہوں، پوجتا ہوں اور توڑ دیتا ہوں

ساحل افتادہ گفت گرچہ بسے زیستم

ہیچ نہ معلوم شد آہ کہ من چیستم

موج ز خود رفتئہ تیز خرامید و گفت

ہستم اگر میروم گر نروم نیستم

ترجمہ: سمندر کے ایک ویران ساحل نے کہا کہ طویل زندگی گزارنے کے بعد بھی یہ معلوم نہ ہوا کہ میں کون ہوں؟ اس دوران پانی کی تیز لہر آئی اور کہا کہ میرا وجود طغیانی سے قائم ہے اگر کھڑی رہوں تو میرا وجود فنا ہوجائے۔

دو صد دانا دریں سخن گفت

سخن نازک تر از برگ سمن گفت

دو سو عقل مندوں نے یعنی بہت سے دانشوروں اور مفکروں نے اس مجلس یعنی اس دنیا میں یا میری قوم سے بہت سی باتیں کیں- ایسی باتیں جو سمن کے پھول کی پتی سے بھی نرم تھیں۔

ولے بامن بگوآں دیدہ ور کیست

کیست کےخارے دید و احوال چمن گفت

لیکن مجھ سے کہو کہ وہ کونسا (اہل چمن کے صحیح حال کو) دیکھنے والا تھا کہ جس نے کانٹوں کو (مسلمان قوم کی حالت خراب اور مصائب کو) دیکھ کر ان سے چمن کے احوال کی بات کی ہو یعنی انہیں یہ کہا ہو کہ تم کانٹوں سے نہ گھبراؤ یہ چمن کا حصہ ہیں پھول پیدا کرنے کی کوشش کرو یا انہیں ماضی کی روایات اور تاریخ سے آشنا کر کے جو چمن کی طرح پربہار تھی ان کو موجودہ خزاں کی حالت سے نکل کر پھر اس بہار کو پیدا کرنےکے لیے کہا ہو (وہ صرف میں تھا

 

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.