header logo

Nazir Baloch: A Flame That Lit the Dark

Nazir Baloch: A Flame That Lit the Dark


In a nation too often subdued by silence, Nazir Baloch spoke — and paid the price. Yet his voice, forged in truth and fearlessness, still echoes across the conscience of Pakistan. A native of Kotla Jam, Bhakkar, and a producer at Radio Pakistan, he was not merely a broadcaster but a sentinel of integrity, wielding the microphone like a torch in the dark.


During the suffocating years of Zia-ul-Haq’s dictatorship, when tyranny wrapped itself in the cloak of piety and dissent was treated as treason, Nazir Baloch refused to kneel. He stood alone, unbowed, and was imprisoned for his courage. But jail could not cage the spirit of a man born to illuminate.


Upon his release, he channeled that unbreakable resolve into Injeel-e-Asghar — a literary testament to spiritual unity. In a time of growing religious fracture, he dared to envision a harmony between Islam, Christianity, and Judaism. His pen became a bridge where others built walls.


Nazir Baloch was not just a writer, nor merely a philosopher — he was the rare soul whose life embodied the ideals he espoused. He lived simply, but thought deeply. He spoke gently, but stood firmly. His bravery was not for show — it was for truth. His scholarship was not for prestige — it was for peace.


Such souls are the marrow of a nation. They do not seek thrones or applause, yet they hold aloft the weight of a country’s moral spine. Nazir Baloch was one of them — rare, radiant, and resolute.


Though he has passed, his light endures. In every act of defiance against oppression. In every word that bridges difference. In every heart that still believes that courage, not cruelty, defines greatness.


A life like his is not ended — it is echoed.


“ان جیسے لوگ کبھی مرتے نہیں — وہ روشنی بن جاتے ہیں۔”


“Souls like his never truly die — they become light.”


May Allah grant him the highest place in His mercy.


Nazir Baloch: A Flame That Lit the Dark

نذیر بلوچ — ایک شعلہ، ایک صدا، ایک نظریہ۔ وہ بہادر بیٹا جس نے آمریت کی تاریکی میں سچ کا چراغ جلایا اور قیمت چکائی، مگر جھکا نہیں، بکا نہیں، اور خاموش ہونا جانتا ہی نہ تھا۔ کوٹلہ جام سے اٹھنے والی یہ آواز ریڈیو پاکستان کے مائیک سے گونجی، تو ظلم کے ایوان لرز اٹھے۔ قید کی زنجیروں نے جسم کو باندھا، مگر روح کو جھکا نہ سکیں۔ رہائی ملی، تو انجیلِ اصغر کے ذریعے نفرت کی دیواروں پر مکالمے، امن اور بین المذاہب ہم آہنگی کے چراغ رکھ دیے۔ وہ نہ صرف ادیب تھا، نہ فقط مفکر، بلکہ ایک زندہ ضمیر، ایک جری بغاوت، ایک فکری انقلاب تھا—جو جرأت کو عظمت کا پیمانہ سمجھتا تھا۔ نذیر بلوچ مرا نہیں—وہ ہر اُس دل میں زندہ ہے جو سچ کے لیے دھڑکتا ہے۔ ایسے لوگ مٹی نہیں ہوتے، وہ روشنی بن جاتے  ہیں۔


ایک ایسی قوم میں، جو اکثر خاموشی کے بوجھ تلے دب جاتی ہے، نذیر بلوچ نے سچ بولا—اور اس کی قیمت چکائی۔ مگر حق اور بے خوفی سے لبریز ان کی آواز آج بھی پاکستان کے اجتماعی ضمیر میں گونجتی ہے۔ کوٹلہ جام، بھکر سے تعلق رکھنے والے اور ریڈیو پاکستان کے پروڈیوسر، وہ محض ایک براڈکاسٹر نہ تھے، بلکہ دیانت و جرأت کا استعارہ تھے۔ ان کا مائیکروفون ظلم کے اندھیروں میں ایک مشعل کی مانند روشن رہتا۔


ضیاءالحق کی آمریت کے گھٹن زدہ دنوں میں، جب اختلاف رائے کو جرم اور حق گوئی کو غداری سمجھا جاتا تھا، نذیر بلوچ نے جھکنے سے انکار کر دیا۔ وہ تنہا کھڑے رہے، مگر ڈگمگائے نہیں۔ اپنے اصولوں کی قیمت میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، مگر ان کی روح کو کوئی سلاخ جھکا نہ سکی۔


رہائی کے بعد، انہوں نے اپنی فکری جہد کو انجیلِ اصغر کی صورت میں دوام دیا—ایک ایسی تحریر جو روحانی ہم آہنگی کی آرزو رکھتی ہے۔ مذہبی تقسیم اور تعصب کے بڑھتے ہوئے رجحان کے خلاف، انہوں نے اسلام، عیسائیت اور یہودیت کے مابین مکالمے اور وحدت کا خواب پیش کیا۔ جہاں دنیا نے دیواریں اٹھائیں، وہاں نذیر بلوچ نے پل تعمیر کیے۔


نہ وہ صرف ادیب تھے، نہ فقط فلسفی—بلکہ ایک مجسم نظریہ تھے۔ ان کی زندگی سادگی کا نمونہ، اور ان کا فکر گہرائی کا آئینہ دار تھا۔ وہ نرمی سے بولتے، مگر حق پر پہاڑ کی طرح جمے رہتے۔ ان کی بہادری نمود کے لیے نہیں، صداقت کے لیے تھی۔ ان کا علم رتبے کے لیے نہیں، امن کے لیے تھا۔


ایسی ہستیاں کسی قوم کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہیں۔ وہ نہ تخت کے خواہاں ہوتے ہیں، نہ تالیوں کے طلبگار—لیکن قوموں کا اخلاقی بوجھ انہی کے کندھوں پر ٹکا ہوتا ہے۔ نذیر بلوچ انہی نایاب، درخشندہ، اور ثابت قدم روحوں میں سے تھے۔


ان کی زندگی تمام نہیں ہوئی، بلکہ ایک مستقل گونج بن گئی ہے۔
ظلم کے خلاف ہر صدائے حق میں،
ہر اس تحریر میں جو فاصلے مٹاتی ہے،
ہر اس دل میں جو اب بھی یہ مانتا ہے کہ عظمت کا پیمانہ جرأت ہے، ظلم نہیں۔

ایسے لوگ کبھی مرتے نہیں—وہ روشنی بن جاتے ہیں۔


اللہ تعالیٰ ان کو جوارِ رحمت میں بلند مقام عطا فرمائے۔۔

Tags

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.